Pages

Friday 25 October 2013

سلاجیت اور سانڈے کا تیل

جس قوم کا ہر شخص مردانہ کمزوری میں مبتلا ہو اور جس قوم میں ہر شخص اپنے اپنے سانڈے کا تیل نکال کر بیچ رہا ہو، اپنی اپنی سلاجیت کے دام کھرے کر رہا ہو، اس قوم نے تعلیم و ترقی کے میدان میں کون سا معرکہ مارنا ہے؟ جو قوم پتھروں، نگینوں اور ھتھیلی کی لکیروں میں اپنا مستقبل تلاش کرتی ہو اس کو اپنے رب کی ربوبیت اور فضل پر کیسے یقین ہو سکتا ہے؟ 

ھمارے ملک کا یہ سب سے بڑا المیہ ھے کہ یہاں ھر کوئی خود کو خود ھی ایکسپرٹ قرار دے لیتا ھے اور خود ہی سپیشلسٹ بن کر معصوم انسانوں کے جان و مال اور ایمان سے کھیلنے لگتا ھے۔یہاں ایکسپرٹ بننے کے لئے کسی ڈگری، ڈپلومہ یا سرٹیفیکیٹ کی ضرورت نہیں ھوتی۔ یہی وجہ ھے کہ آپ کو یہاں قدم قدم پر ایک سے بڑھ کر ایک فراڈیہ ملے گا۔ سڑکوں ،بازاروں، ریلوے اسٹیشنوں، لاری اڈوں کے قریب آپ کو ایسے ہی کئی ماھرین نفسیات، جنسیات، طبیعیات، فلکیات اور عملیات وغیرہ ڈیرہ جمائے نظر آئیں گے جو معصوم خلق خدا کو لوٹ رھے ھوں گے۔ گلیوں محلوں میں عطائی حکیم اور ڈاکٹر نظر آئیں گے۔ کسی کے پاس کوئی ڈگری کوئی سند نہیں ھوتی۔ لیکن ھر کوئی اپنے تئیں سپیشلسٹ بنا ھوا ھے۔ کہیں سڑک کنارے آپ کی آنکھوں کے سامنے سانڈے کا تیل نکالا جا رھا ھے، کہیں پر کیکروں کی کالی گوند کو سلاجیت قرار دے کر لوگوں کی مردانہ طاقت بڑھائی جا رہی ھے۔ کہیں ماھر عملیات فٹ پاتھ پر کپڑا بچھائے لوگوں کے جن نکالتا نظر آئے گا۔ کوئی فٹ پاتھیہ پامسٹ اپنے مستقبل سے بے خبر لوگوں کا مستقبل بتاتا نظر آئے گا۔ ان سب میں سے سب سے فیورٹ دھندہ جنسی امراض کے علاج کا ھے۔یہاں ھر کوئی جنسی مریض ہے اور ھر کوئی اس جنسی مریض کا ڈاکٹر بنا ھوا ہے۔ کوئی دیوار ایسی نہیں ہوگی جس پر بڑے بڑے حروف میں آپ کے مردانہ امراض کی لمبی چوڑی لسٹ نہیں لگی ہوگی اور ساتھ میں ان امراض کے سپیثلسٹ کا لاری اڈا کا ایڈریس نہیں ہوگا۔ یوں محسوس ہوتا ہے اس ملک کا ہر بندہ مردانہ کمزوری کا شکار ہے اور ہر گلی کی نکڑ پر اس مرض کے ڈاکٹر کا "کلینک" ہے۔ 

میں مجنوں دیوانہ سوچ رہا ہوں جس قوم کا ہر شخص مردانہ کمزوری میں مبتلا ہو اور جس قوم میں ہر شخص اپنے اپنے سانڈے کا تیل نکال کر بیچ رہا ہو، اپنی اپنی سلاجیت کے دام کھرے کر رہا ہو، اس قوم نے تعلیم و ترقی کے میدان میں کون سا معرکہ مارنا ہے؟
جو قوم پتھروں، نگینوں اور ھتھیلی کی لکیروں میں اپنا مستقبل تلاش کرتی ہو اس کو اپنے رب کی ربوبیت اور فضل پر کیسے یقین ہو سکتا ہے؟ 

مکمل تحریر >>

Monday 14 October 2013

تعلیمی جدجہد کا روحانی راز


اس ملک و قوم پر جہالت کے اندھیرے چھائے ہوئے تھے .وہاں تعلیم یا سکول کالج کا تصور بھی نہیں تھا. ملک کے طول و عرض میں ایک بھی مرد یا خاتون ایسے نہیں تھے جنہوں نے کبھی سکول جا کر بھی دیکھا ھو . خاص طور پر خواتین کیلئے تو تعلیم کا نام لینا بھی حرام قرار دے دیا گیا تھا. کسی نے سکول کا نام بھی لیا اسے دھائیں سے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا . ایسی صورتحال کو دیکھ دیکھ کر سمندر پار ہماری حالت پر دن رات کڑھنے والے ہمارے امریکی بھائی راتوں کو منہ چھپا چھپا کر رویا کرتے تھے، ہماری جہالت اور تعلیم سے دوری ان کو خون کے آنسو رلاتی تھی . وہ بیچارے مندروں مسجدوں گرجا گھروں میں ہماری جہالت کے خاتمے کیلئے دعائیں کیا کرتے. درباروں پر منتیں مانا کرتے.
آخرکار ان کی دعائیں مناجاتیں اور منتیں رنگ لائیں. اور . . . پھر ایک دن دو باپ بیٹی تعلیم کے فرشتے بن کر آسمان سے اترے ان کے زمین پر اترتے ہی اس ملک و قوم کی تقدیر بدل گئی . دھڑادھڑ یونیورسٹیاں کالج سکول کھلنے لگے . باپ بیٹی کے قدموں کی برکت سے مرد و خواتین اندھا دھند سکولوں کالجوں میں داخلے لینے لگے وہ قوم جس کو تعلیم کا نام سن کر ہی بخار ہوجاتا تھا ان باپ بیٹی کی بیمثال جدوجہد کے سبب بھاگ بھاگ کر تعلیمی اداروں میں علم کی دولت سے مالامال ہونے جا رہی تھی. جہالت کے اندھیرے چھٹنے لگے تھے . ایک روحانی تعلیمی انقلاب کی بدولت میرے جیسے ان پڑھ بڈھے طوطے رات کو ناخواندگی کی حالت میں سوتے اور صبح آنکھیں ملتے ہوئے جاگتے تو زیور تعلیم سے آراستہ ہوچکے ھوتے . خواتین بھی جوق در جوق بے خطر تعلیم حاصل کرنے لگیں میرے پنڈ کی مائی پھاتاں، کوڑی مائی ، اور بے بے مختاران جیسی ستر ستر سال کی بوڑھی عورتیں ڈگریوں پر ڈگریاں لینے لگیں. 
ایک بڑی حیرت انگیز اور معجزانہ بات تھی کہ باپ بیٹی کی عظیم الشان جدوجہد، روحانی یا سلیمانی ٹوپی جیسی تھی جو صرف ہمارے امریکی بھائیوں کو نظر آتی . لوگ تعلیم کے میدان میں جھنڈے پر جھنڈے گاڑ رہے تھے لیکن ان کو پتہ نہیں چل رہا تھا کہ ان تعلیمی جھنڈوں کا کپڑا کہاں سے تیار ہوکر آرہا ہے . ایک اور معجزہ بھی ساتھ ساتھ رونما ہورہا تھا چھ سات سال کی گل مکئی صحافت کے میدان میں بھی سب کو پیچھے چھوڑ چکی تھی . پھر جیسا کہ ایسی الف لیلہ کہانیوں میں ہوتا ہے کہیں سے جنات کے بادشاہ کو اس ملک میں تعلیم کی حیرت انگیز کامیابی کا پتہ چلا . تعلیم دشمن جنات کے بادشاہ کا خون کھول اٹھا . اس نے جنات کو باپ بیٹی کی گوشمالی کیلئے بھیجا جنہوں نے تعلیم کے میدان میں تاریخی جدوجہد کرنے والی اس معصوم فرشتی پر حملہ کر دیا۔ دنیا میں کہرام برپا ھوگیا۔ ھمارے امریکی دوست جنہوں نے کبھی کان پر رینگتی جوں اور ھاتھ پر کاٹ لینے والی چیونٹی کو نہیں مارا تھا ان کی امن پسند فطرت پر خوفناک ضرب پڑی دکھ کا یہ عالم تھا کہ وہاں کی معزز خواتین اپنے جسموں پر اس فرشتی اور علم کی ملکہ کے نام لکھوا لکھوا کر ناچنے لگیں اور اپنا غم مٹانے لگیں۔ میرا جگری دوست معصوم صورت بانکی مون ویران کنوؤں پر جا کر چھپ چھپ کر روتا آھیں بھرتا اور ملکہ ء علم کے لئے درد بھری نظمیں لکھتا۔ 
تب ۔۔۔۔۔ پہلی بار۔۔۔۔۔۔پہلی بار اس ملک کے لوگوں کو اس کی تعلیمی جدجہد کا روحانی راز معلوم ھوا۔اپنے ھاں کے تعلیمی انقلاب کا اصل سرا ھاتھ لگا۔ ان کو پتہ چلا کہ کس طرح ملکہ ء علم نے اپنی روحانی قوتوں سے اس قوم کی جہالت کو علم کی روشنی میں بدل دیا تھا۔ ھمارے امریکی بھائی اب اس ملکہ علم کو سب سے بڑے اعزاز سے نوازنے کا فیصلہ کر چکے ہیں دنیا بھر کے میڈیا کی طرح اس ملک کا میڈیا بھی ملکہ ء علم کو خراج تحسین پیش کرتے ھوئے نہیں تھکتا۔ 
ایسے میں میرے پنڈ کی مائی پھاتاں اور کوڑی مائی ملکہ ء علم کے اس تعلیمی انقلاب کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔شاید ان کی عمر نے ان کو نہ ماننے کے جرم کی سزا سے بے نیاز کر دیا ھے۔ 

مکمل تحریر >>

بیٹیاں

کہنے لگا کہ جب مجھے پتہ چلا کہ میرے گھر بیٹی کی پیدائش ہوئی تو میں فورا" گھر پہنچا۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ بچی کو میرے حوالے کر دو۔ میری بیوی نے مجھے کہا بچی بہت خوبصورت ہے کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم اس کو قتل نہ کریں۔ میں نے کہا نہیں ایسا ممکن نہیں قبیلے والے ہمیں جینے نہیں دیں گے ۔ میری عزت بے عزتی کا مسلہ ہے۔ میری بیوی نے کہا چلو ایک بار مجھے اس کو جی بھر کے دیکھ لینے دو اور تم بھی دیکھ لو۔ تب میں نے بھی بے دلی سے اور حقارت سے بچی کے چہرے پر نظر ڈالی۔بچی واقعی انتہا کی خوبصورت اور پرکشش تھی تھی کچھ خون کی نسبت تھی میرا دل بے اختیار نرمی سے بھر گیا میں نے بچی کو محبت سے اٹھا لیا۔اس کو چہرے پر جوں جوں نظر پڑتی میرے دل میں اس کی محبت اور زیادہ بڑھ جاتی۔میرے چہرے کے بدلتے تاثرات دیکھ کر میری بیوی نے ایک بار پھر التجائیہ انداز میں مجھے کہا کہ اس بچی کو زندہ دفن نہ کیا جائے۔ تب میری پدرانہ شفقت نے مجھے اپنی بیوی کا ہمنوا بنا دیا۔ میں نے فیصلہ کیا بچی کو دفن نہیں کروں گا۔ دن گذرنے لگے میرے رشتہ دار اور قبیلے والے مجھے پوچھتے کہ میں نے ابھی تک بچی کو زندہ دفن کیوں نہیں کیا؟ میں ان کو ٹال جاتا۔ آہستہ آہستہ میرے قبیلے والے پیٹھ پیچھے میرے اوپر آوازے کسنے لگے طعنے دینے لگے لیکن میں نظرانداز کر دیتا بچی بڑی ہونے لگی اس دوران لوگ کھل کر مجھ سے نفرت کرنے لگے کہ میں کیسا بے غیرت ہوں جو ایک بیٹی سے محبت کی خاطر قبیلے کے رواج کی پیروی نہیں کر رہا۔وقت گذرنے لگا حتی کہ میرئ بیٹی چلنے پھرنے اور کھیلنے کودنے لگ گئی۔ 

ایک دن میرے قبیلے کے تمام لوگ میرے گھر کے سامنے اکٹھے ہو گئے اور مجھے باہر بلا کر پوچھنے لگے کہ کیا میں اپنی بچی کو رواج کے مطابق دفنا رہا ہوں یا نہیں؟ اگر نہیں تو مجھے قبیلہ چھوڑ کر چلے جانا چاہئیے۔ اس پر میں نے اور میری بیوی نے قبیلے والوں کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے اور وعدہ کیا کہ بچی کو دفنا دیا جائے گا۔اگلے روز میری بیوی نے بچی کو نئے کپڑے پہنائے اور میں بچی کو لیکر ویرانے کی طرف چل دیا۔ بچی میرے پیچھے پیچھے چلنے لگی۔میری بیٹی مجھ سے بہت محبت کرتی تھی راستے میں وہ مجھ سے بہت سی معصومانہ باتیں کرتی چلی جا رہی تھی۔ ایک مناسب جگہ دیکھ کر ہم رک گئے ۔ میں کدال سے زمین کھودنے لگا۔میری بیٹی کہنے لگی ابا آپ تھک جاؤ گے مجھے یہ کام کرنے دو لیکن میں خاموشی سے خود گڑھا کھودتا رہا۔ کچھ دیر بعد جب میں تھک کر ہانپنے لگا تو میری بیٹی نے کہا ابا اب آپ آرام سے بیٹھ جاؤ اور خود اپنے ننھے منے ہاتھوں سے گڑھے میں سے مٹی نکالنے لگی۔اس طرح ہم دونوں نے گڑھے کی کھدائی مکمل کر لی۔ تب میں نے اپنی بیٹی سے کہا کہ وہ گڑھے میں لیٹ جائے تابعدار اور مجھ سے محبت کرنے والی بیٹی خاموشی سے میرا حکم مان کر قبر میں لیٹ گئی۔ میں اس پر مٹی ڈالنے لگا میری بیٹی نے اٹھنے کی کوشش نہ کی اور اس طرح میں نے اس کو زندہ دفن کر دیا۔

وہ شخص یہ واقعہ تاجدارِ انبیاء رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں سنا رہا تھا جن کی آنکھوں سے آنسو اس قدر بہہ رہے تھے کہ پورا چہرہ تر ہو گیا تھا۔ 

میں بات کو مختصر کرتا ہوں۔ غور کرنے کی بات ہے کہ کہیں ہم بھی تو اپنی خواہشات اور غلطیوں گناہوں کے گڑھوں میں اپنی بیٹیوں کو ونی یا اس طرح کی دیگر رسومات نام پر زندہ دفن تو نہیں کر رہے؟


مکمل تحریر >>

ظلم

تب انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ مزید ظلم ہوتا نہیں دیکھیں گے ظالموں کے قہقہے اور مظلوموں کی چیخیں نہیں برداشت کریں گے . انہوں نے اپنے کانوں میں سیسہ ڈال لیا اور آنکھوں میں دہکتی سلائیاں پھیر لیں . اب وہ امن کے نغمے گاتے ہیں اور اپنے اپنے خداؤں کی حمد و ثناء کرتے ہیں. ان کی زبانیں آزاد ہیں. 

مکمل تحریر >>