جس قوم کا ہر شخص مردانہ کمزوری میں مبتلا ہو اور جس قوم میں ہر شخص اپنے اپنے سانڈے کا تیل نکال کر بیچ رہا ہو، اپنی اپنی سلاجیت کے دام کھرے کر رہا ہو، اس قوم نے تعلیم و ترقی کے میدان میں کون سا معرکہ مارنا ہے؟ جو قوم پتھروں، نگینوں اور ھتھیلی کی لکیروں میں اپنا مستقبل تلاش کرتی ہو اس کو اپنے رب کی ربوبیت اور فضل پر کیسے یقین ہو سکتا ہے؟
ھمارے ملک کا یہ سب سے بڑا المیہ ھے کہ یہاں ھر کوئی خود کو خود ھی ایکسپرٹ قرار دے لیتا ھے اور خود ہی سپیشلسٹ بن کر معصوم انسانوں کے جان و مال اور ایمان سے کھیلنے لگتا ھے۔یہاں ایکسپرٹ بننے کے لئے کسی ڈگری، ڈپلومہ یا سرٹیفیکیٹ کی ضرورت نہیں ھوتی۔ یہی وجہ ھے کہ آپ کو یہاں قدم قدم پر ایک سے بڑھ کر ایک فراڈیہ ملے گا۔ سڑکوں ،بازاروں، ریلوے اسٹیشنوں، لاری اڈوں کے قریب آپ کو ایسے ہی کئی ماھرین نفسیات، جنسیات، طبیعیات، فلکیات اور عملیات وغیرہ ڈیرہ جمائے نظر آئیں گے جو معصوم خلق خدا کو لوٹ رھے ھوں گے۔ گلیوں محلوں میں عطائی حکیم اور ڈاکٹر نظر آئیں گے۔ کسی کے پاس کوئی ڈگری کوئی سند نہیں ھوتی۔ لیکن ھر کوئی اپنے تئیں سپیشلسٹ بنا ھوا ھے۔ کہیں سڑک کنارے آپ کی آنکھوں کے سامنے سانڈے کا تیل نکالا جا رھا ھے، کہیں پر کیکروں کی کالی گوند کو سلاجیت قرار دے کر لوگوں کی مردانہ طاقت بڑھائی جا رہی ھے۔ کہیں ماھر عملیات فٹ پاتھ پر کپڑا بچھائے لوگوں کے جن نکالتا نظر آئے گا۔ کوئی فٹ پاتھیہ پامسٹ اپنے مستقبل سے بے خبر لوگوں کا مستقبل بتاتا نظر آئے گا۔ ان سب میں سے سب سے فیورٹ دھندہ جنسی امراض کے علاج کا ھے۔یہاں ھر کوئی جنسی مریض ہے اور ھر کوئی اس جنسی مریض کا ڈاکٹر بنا ھوا ہے۔ کوئی دیوار ایسی نہیں ہوگی جس پر بڑے بڑے حروف میں آپ کے مردانہ امراض کی لمبی چوڑی لسٹ نہیں لگی ہوگی اور ساتھ میں ان امراض کے سپیثلسٹ کا لاری اڈا کا ایڈریس نہیں ہوگا۔ یوں محسوس ہوتا ہے اس ملک کا ہر بندہ مردانہ کمزوری کا شکار ہے اور ہر گلی کی نکڑ پر اس مرض کے ڈاکٹر کا "کلینک" ہے۔
میں مجنوں دیوانہ سوچ رہا ہوں جس قوم کا ہر شخص مردانہ کمزوری میں مبتلا ہو اور جس قوم میں ہر شخص اپنے اپنے سانڈے کا تیل نکال کر بیچ رہا ہو، اپنی اپنی سلاجیت کے دام کھرے کر رہا ہو، اس قوم نے تعلیم و ترقی کے میدان میں کون سا معرکہ مارنا ہے؟
جو قوم پتھروں، نگینوں اور ھتھیلی کی لکیروں میں اپنا مستقبل تلاش کرتی ہو اس کو اپنے رب کی ربوبیت اور فضل پر کیسے یقین ہو سکتا ہے؟
جو قوم پتھروں، نگینوں اور ھتھیلی کی لکیروں میں اپنا مستقبل تلاش کرتی ہو اس کو اپنے رب کی ربوبیت اور فضل پر کیسے یقین ہو سکتا ہے؟