Pages

Monday 14 October 2013

بیٹیاں

کہنے لگا کہ جب مجھے پتہ چلا کہ میرے گھر بیٹی کی پیدائش ہوئی تو میں فورا" گھر پہنچا۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ بچی کو میرے حوالے کر دو۔ میری بیوی نے مجھے کہا بچی بہت خوبصورت ہے کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم اس کو قتل نہ کریں۔ میں نے کہا نہیں ایسا ممکن نہیں قبیلے والے ہمیں جینے نہیں دیں گے ۔ میری عزت بے عزتی کا مسلہ ہے۔ میری بیوی نے کہا چلو ایک بار مجھے اس کو جی بھر کے دیکھ لینے دو اور تم بھی دیکھ لو۔ تب میں نے بھی بے دلی سے اور حقارت سے بچی کے چہرے پر نظر ڈالی۔بچی واقعی انتہا کی خوبصورت اور پرکشش تھی تھی کچھ خون کی نسبت تھی میرا دل بے اختیار نرمی سے بھر گیا میں نے بچی کو محبت سے اٹھا لیا۔اس کو چہرے پر جوں جوں نظر پڑتی میرے دل میں اس کی محبت اور زیادہ بڑھ جاتی۔میرے چہرے کے بدلتے تاثرات دیکھ کر میری بیوی نے ایک بار پھر التجائیہ انداز میں مجھے کہا کہ اس بچی کو زندہ دفن نہ کیا جائے۔ تب میری پدرانہ شفقت نے مجھے اپنی بیوی کا ہمنوا بنا دیا۔ میں نے فیصلہ کیا بچی کو دفن نہیں کروں گا۔ دن گذرنے لگے میرے رشتہ دار اور قبیلے والے مجھے پوچھتے کہ میں نے ابھی تک بچی کو زندہ دفن کیوں نہیں کیا؟ میں ان کو ٹال جاتا۔ آہستہ آہستہ میرے قبیلے والے پیٹھ پیچھے میرے اوپر آوازے کسنے لگے طعنے دینے لگے لیکن میں نظرانداز کر دیتا بچی بڑی ہونے لگی اس دوران لوگ کھل کر مجھ سے نفرت کرنے لگے کہ میں کیسا بے غیرت ہوں جو ایک بیٹی سے محبت کی خاطر قبیلے کے رواج کی پیروی نہیں کر رہا۔وقت گذرنے لگا حتی کہ میرئ بیٹی چلنے پھرنے اور کھیلنے کودنے لگ گئی۔ 

ایک دن میرے قبیلے کے تمام لوگ میرے گھر کے سامنے اکٹھے ہو گئے اور مجھے باہر بلا کر پوچھنے لگے کہ کیا میں اپنی بچی کو رواج کے مطابق دفنا رہا ہوں یا نہیں؟ اگر نہیں تو مجھے قبیلہ چھوڑ کر چلے جانا چاہئیے۔ اس پر میں نے اور میری بیوی نے قبیلے والوں کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے اور وعدہ کیا کہ بچی کو دفنا دیا جائے گا۔اگلے روز میری بیوی نے بچی کو نئے کپڑے پہنائے اور میں بچی کو لیکر ویرانے کی طرف چل دیا۔ بچی میرے پیچھے پیچھے چلنے لگی۔میری بیٹی مجھ سے بہت محبت کرتی تھی راستے میں وہ مجھ سے بہت سی معصومانہ باتیں کرتی چلی جا رہی تھی۔ ایک مناسب جگہ دیکھ کر ہم رک گئے ۔ میں کدال سے زمین کھودنے لگا۔میری بیٹی کہنے لگی ابا آپ تھک جاؤ گے مجھے یہ کام کرنے دو لیکن میں خاموشی سے خود گڑھا کھودتا رہا۔ کچھ دیر بعد جب میں تھک کر ہانپنے لگا تو میری بیٹی نے کہا ابا اب آپ آرام سے بیٹھ جاؤ اور خود اپنے ننھے منے ہاتھوں سے گڑھے میں سے مٹی نکالنے لگی۔اس طرح ہم دونوں نے گڑھے کی کھدائی مکمل کر لی۔ تب میں نے اپنی بیٹی سے کہا کہ وہ گڑھے میں لیٹ جائے تابعدار اور مجھ سے محبت کرنے والی بیٹی خاموشی سے میرا حکم مان کر قبر میں لیٹ گئی۔ میں اس پر مٹی ڈالنے لگا میری بیٹی نے اٹھنے کی کوشش نہ کی اور اس طرح میں نے اس کو زندہ دفن کر دیا۔

وہ شخص یہ واقعہ تاجدارِ انبیاء رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں سنا رہا تھا جن کی آنکھوں سے آنسو اس قدر بہہ رہے تھے کہ پورا چہرہ تر ہو گیا تھا۔ 

میں بات کو مختصر کرتا ہوں۔ غور کرنے کی بات ہے کہ کہیں ہم بھی تو اپنی خواہشات اور غلطیوں گناہوں کے گڑھوں میں اپنی بیٹیوں کو ونی یا اس طرح کی دیگر رسومات نام پر زندہ دفن تو نہیں کر رہے؟


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔